Weather and views of Pakistan

 جون کے مہینے میں کراچی کی چلچلاتی دھوپ میں اپنے سامان میں سوئیٹر، شالیں ، جراہیں اور دستانے رکھنا ہمیں نہایت مطلاہ فی لگ رہا تھا ،لیکن یہ خالو جان کی ہدایات تھیں جن پر عمل کرنا از حد ضروری تھا۔ 10 سمندر ، ڈوبتے سورج کی زرد روشنی میں بہت حسین لگ رہا تھا۔ ہم بہت دیر تک مبہوت ہوکر یہ منظر دیکھتے رہے۔ کراچی کے گریم گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوتے ہی ہماری سیر کا آغاز بھی ہو گیا تھا۔ گزشتہ شام ہم سب سمندر کی سیر کو گئے تھے ۔ ٹھاٹھیں مارتا


موسم میں سمندر کا ٹھنڈا پانی اتنا فرحت بخش ثابت ہوا کہ ہمارے بڑوں نے سڑک کے ذریعے پاکستان کی سیر کا پروگرام بنا لیا۔ سامان سے لدے پھندے سفر کا آغاز ہوا۔ ہمارے سفر کے رہنما اور امیر خالو جان تھے ۔ سفر کرتے وقت اگر دو لوگ بھی ہوں تو ایک کو امیر بنا لینے سے فیصلہ کرنا آسان رہتا ہے اور مختلف راۓ ہونے کی صورت میں بھی کام نہیں رکتا۔ یہی سنت طریقہ بھی ہے۔ کراچی سے پشاور جانے والی سڑک پر لگے سنگ میل آ گے آنے والے علاقوں اور ان کے فاصلے سے آ گاو کر تے ہیں۔ اس طویل سڑک کے آغاز سے آخر تک مختلف تہذ یوں ، ثقافتوں اور موسموں کی تبدیلیاں اور بدلتے مناظر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کراچی سے حیدر آباد تک ہوا خشک اور گرم تھی ۔ در یاۓ سندھ ایک پنگے دریا کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ حیدر آباد آ تے ہی سندھی لباسوں ، سائیں اور ادا کی آوازوں ، اجرکوں اور ہاتھ کے کام کی چادروں نے نظروں کو رونق بخشنا شروع کر دیا۔ دریاۓ سندھ سے نکلنے والی شہر میں ارد گرد کھیتوں کو سیراب کرتی ہیں ۔ ہم حیدر آباد کے پاس بہنے والی پھلیلی نہر کے پاس کچھ دیر ڑ کے۔ یہاں کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذ یوں میں شمار کی جاتی ہے۔ موسم کے لحاظ سے سندھ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بالائی خطے کا مرکزی شہر جیکب آباد ہے۔ یہاں اور اس کے اردگرد کے علاقوں کی فضا سخت گرم اور خشک ہے۔ درمیانی یا وطی حئے کا مرکز حیدر آباد ہے جہاں بالائی حضنے سے کچھ کم درجہ حرارت ہوتا ہے۔ زیر میں سندھ کا درجہ حرارت اور موسم خاصا مختلف ہے۔ گورکھ ہل اور دادو کی دوسری پہاڑیوں پر درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے چلا جا تا ہے اور بھی ملکی برف باری بھی ہو جاتی ہے۔ سکھر پہنچ کر ہم رات کو ہوٹل میں کھہرے۔ صبح ہوتے ہی سکھر بیراج پر اس کے دروازوں کے درمیان سے پانی گزرنے کا نظارہ کیا۔ ناشتے کے بعد پھر سفر کا سلسلہ شروع کیا۔ تھر کا صحرا ، جو ایک وسیع وعریض رقبے پر پاکستان اور ہندوستان کی سرحدوں کے ارد گرد پھیلا ہوا ہے ، ریت کے سمندر کی مانند ہے۔ ریت میں چلتے انوں کی قطاریں ، روایتی زیورات اور لباس میں ملبوس سروں پر مکے رکھ کر چلتی ہوئی عورتیں دیکھنے میں کسی تاریخی فلم کا حصہ گتی ہیں۔ سندھ سے نکلتے اور پنجاب میں داخل ہوتے ہی لباس اور زبان کا فرق نمایاں ہوتا نظر آ تا ہے۔ کانوں میں جی آ یا نوں کی صدائیں رس گھولتی ہیں ۔ بیل گاڑیوں پر سفر کرتے کسان اور ڈور تک پھیلے ہرے بھرے کھیتوں کا نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ کہیں نہروں کے جال ، کہیں ٹریکٹر اور کہیں بیلوں سے چلنے والے ہل ، مختلف فصلوں کے ڈھیر ، اور ان فصلوں کو لاد کر لے جاتے ٹرک اور بیل گاڑیاں پورے پنجاب کو رونق بخشتی نظر آ رہی تھیں ۔ سڑک کے ارد گرد بہت سی صنعتیں ، فیکٹریاں ، ملیں اور اپنوں کے بھنے بھی


نظر آۓ۔موٹروے اور گر ینڈ ٹرنک روڈ ( جی ٹی روڈ ) مرکزی شاہراہیں میں جو پنجاب کے مختلف علاقوں کو ایک دوسرے سے اور دوسرے صوبوں سے ملاتی ہیں ۔ جنوبی پنجاب میں فورٹ مزد کا پہاڑی مقام مری کی یاد دلاتا ہے۔ ملتان کی سیر کے لیے خاصا وقت درکار تھا لیکن ہم ملتان میں ایک دن مظہرے۔ مقامی لوگوں کے مطابق ’’ گرد ، گرما ، گدا اور گورستان‘ یہ چار چنے یا یہاں کی پیلان تی۔ گرد، یعنی مٹی بہت اڑتی ہے ، موسم گرما شدید گرم ہوتا ہے ، گدا لینی فقیروں اور گورستان عینی قبرستانوں کی کثرت ہے۔ ملتان سے لاہور کا سفر بھی نہروں ، کھیتوں اور باغات کے نظاروں سے بھر پور تھا۔ گرمی کی شدت میں ہماری گاڑی کا ائیرکنڈ ین


بھی بہت کم کام کر رہا تھا۔ لاہور میں تاریخی مقامات ، باغات اور بازاروں کے مناظر دل موہ لینے والے تھے۔ زندہ دلان لاہور کی خوش دلی اور مہمان نوازی مثالی تھی ۔ ہم سب ترو تازہ ہو گئے ۔ گرمی کی شدت یہاں بھی بہت تھی ۔ ہم جب لاہور سے بذریعہ موٹر وے ، اسلام آباد کی جانب نکلے تو بادل چھا گئے اور بارش بھی ہوئی مگر اس سے گرمی کم ہونے کی بجاۓ حبس میں اضافہ ہی ہوا۔ اسلام آباد پہنچتے ہی مرگلہ کی پہاڑیوں کے سہرے اور اس سبزے کے درمیان چمکتی فیصل مسجد نے سفر کی تھکن بھلا دی۔ رات اسلام آباد کے ایک پرسکون گیسٹ ہاؤس میں گزار کر اگلے دن تمام اہم 




مقامات ، دامن کوہ ، شکر پڑیاں ، لوک ورثہ میوزیم ، پاکستان نیومنٹ ، راول ڈیم اور اس کا پارک رکھے ۔ رات کو دامن کو پر واقع ایک ریستوران میں کھانا کھایا۔ پہاڑ پر واقع اس ریستوران سے بچے اسلام آباد کی روشنیاں جھلملاتی اسی لگ رہی تھیں جیسے کہاں زمین پر اتر آئی ہو۔ پاکستان کا سوئٹزر لینڈ کہلا تا ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ ہے۔ اسلام آباد سے آگے کا سفر خاصا آرام دہ تھا اور گرمی کی شدت میں کی آتی جا رہی تھی ۔ ہم سوات جا رہے تھے ۔ سوات ہے۔ یہاں گرمیوں میں بھی منگی سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہوتی ہے۔ فضاگٹ کے پاس ایک ہوٹل میں ٹھہرے ۔ سامنے ہی دریائے سوات خاموشی سے بہ رہا تھا۔ آس پاس کے علاقے کی خوبصورتی بیان سے باہرتھی ۔ جگہ جگہ گرتی آبشار میں مچھلیوں کی پرورش کے لیے بنے فارم ، مالم جبہ اور سب سے بڑھ کر کالام کی خوبصورتی اور مناظر کا تو کہنا ہی کیا۔ خود رو پھولوں کی بہتات ، اونچے پہاڑوں کی برف پوش چونیاں جن میں نانگا پربت کی چوٹی بھی شامل تھی ، پہاڑی جنگلات کے درمیان سے گزرتے اونچے نیچے راستے ، گھوڑوں ، جیپوں اور خچروں پر سوار لوگ ایک ایسے منظر کا حقہ تھے جو ایک دفعہ دیکھنے کے بعد کوئی بھلا نہیں سکتا۔ کالام سے جیپ کر کے ہم مہوڈنڈ جھیل دینے بھی گئے اور خالو جان کی نصیحت کے سیب گریم


کپڑے موجود ہونے پر ان کا بہت شکر یہ ادا کیا۔ سچی بات یہ کہ ہمیں ان کپڑوں کو سینے کے باوجود بھی سردی محسوں ہو رہی تھی ۔ اور گلیشیرز سے گھرے راستے پر سفر کرتے رہے ۔ ناران پہنچ کر ایک ہوٹل میں آرام کیا۔ اگلے دن جیپ میں جھیل سیف الملوک کا پر خطر سوات میں چار دن گزارنے کے بعد ہم نے شمالی علاقہ جات کا سفر اختیار کیا۔ ناران تک ہم چاروں طرف بلند و بالا پہاڑوں سفر کیا۔ کئی مقامات پر تو ہم سب کی چیں نکل گئیں ۔ بہر طور ماہر ڈرائیور نے ہمیں سیف الملوک جیل سے کچھ ڈور اتارا ، جہاں سے پیدل اور گھوڑوں پر سفر کرنا تھا۔ سخت سردی میں یہ سفر دلچسپ اور ہنگامہ خیز تھا۔ جیل چاروں جانب سے برف پوش پہاڑوں سے گھری تھی ، یخ بستہ پانی خاموش تھا۔ پوری وادی بے پناہ حسن میں اپنی مثال آپ تھی۔


کاغان اور ناران کے ارد گرد کے علاقے بھی دیکھے اور دل ہی دل میں اللہ کی شان کے ثنا خواں رہے۔ واپسی کا سفر کچھ اداس لیے گز را۔ خالو جان نے ان علاقوں کے بارے میں بھی معلومات فراہم کیں جہاں ہم نہیں جا سکے تھے۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان اپنے اندر معدنیات کے خزانے لیے ہوۓ ہے۔ یہاں کا موم سردیوں میں سائبر یا کے برفانی صحرا سے آنے والی ہواؤں کی وجہ سے سخت سرد ہوتا ہے اور گرمیوں میں خشک اور گرم ۔ کوئٹہ کی وادی میں بھی برف باری ہوتی ہے اور کبھی نہیں۔ پہاڑی مقام زیارت اپنی خوبصورتی اور حسین مناظر کے لیے مشہور ہے ۔ قائد اعظم نے اپنی علالت کے ایام یہاں کی صحت بخش فضا میں گزارے تھے۔ قائد اعظم ریزیڈنسی تاریخی مقامات میں سے ایک ہے۔ سچلوں مثلا چیری ، خوبانی ، آلو بخارے ، زرد آلو سے لدے درخت اور عام طور پر پاۓ جانے والے اخروٹ ، بادام ، چلغوزوں اور کاجو کے


باغات یہاں کی شان دوبالا کرتے ہیں۔ خالو جان نے گلگت اور اسکر دو کے بارے میں بھی بتایا اور اسلام آباد سے اسکردو کے فضائی سفر کا حال اور نیچے برف پوش بلند ترین پہاڑوں کے مناظر اپنے سیل فون میں دکھاۓ۔ وہاں جانے کا ارمان لیے ہم واپس کراچی پہنے۔

Post a Comment

0 Comments